حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام جمعہ بغداد آیت اللہ سید یاسین موسوی نے ٹرمپ کے امریکہ کا صدر بننے اور ان کی مشرق وسطیٰ اور دنیا کے حوالے سے پالیسیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: "عراق میں دو تصورات پائے جاتے ہیں، کچھ عراقی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ عراق کو عالمی اور علاقائی معاملات سے الگ تھلگ رہنا چاہیے اور مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا چاہیے۔"
انہوں نے مزید کہا: "یہ افراد دلیل دیتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ طاقتوروں کی لڑائی ہے اور ہمارا اس میں کوئی کردار نہیں ہے، عراق جنگوں کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے، اور تیسری وجہ یہ ہے کہ امریکہ جو چاہے کرتا ہے اور عراق آج بھی امریکی قبضے میں ہے۔"
آیت اللہ موسوی نے کہا کہ کچھ سیاستدان اس نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں اور کہتے ہیں: "کیا ہمیں ہمیشہ کے لیے امریکہ کے قبضے میں رہنا چاہیے؟" انہوں نے مزید کہا کہ "امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد، موساد کھلے عام عراق میں داخل ہوا لیکن مزاحمت کی کاروائیوں کی بدولت موساد عراق کے تمام علاقوں سے نکل کر کردستان کی طرف واپس چلا گیا، اور آج وہ صرف امریکی سفارتخانے میں خفیہ طور پر سرگرم ہے۔"
آیت اللہ موسوی نے مزید کہا: "دنیا میں تبدیلیاں آئی ہیں، محمد بن سلمان نے امریکہ کی نافرمانی کرنے کا فیصلہ کیا اور ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس میں دفاعی معاہدہ بھی شامل ہے، جو کہ امریکہ کے خلاف بغاوت کا اظہار ہے۔"
انہوں نے کہا کہ "ٹرمپ اور اسرائیل میں موجود تلمودی گروپ کے درمیان معاہدہ ہے جس کی قیادت نتن یاہو، بن گویر اور اسموتریچ کر رہے ہیں، اور وہ دو ماہ کے اندر ایک نیا مشرق وسطیٰ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔"
انہوں نے لبنان میں جنگ کے خاتمے کے لیے کی جانے والی بات چیت کو ناکام قرار دیا اور کہا کہ "اگر لبنان میں جنگ ختم ہوتی ہے تو نتن یاہو عراق کے ساتھ اپنی جنگ شروع کرے گا، جیسا کہ حالیہ دنوں میں اسرائیل اور امریکہ نے عراق کو دھمکیاں دی ہیں اور ہم نے عراق کے فضاؤں میں اسرائیلی ڈرونز کی پروازوں کا مشاہدہ کیا ہے۔"
آخر میں آیت اللہ موسوی نے کہا: "عراقی عوام کبھی بھی تسلیم نہیں ہوں گے اور اگرچہ ہمارے پاس مناسب اسلحہ نہیں ہے اور ہم جنگ کے حامی نہیں ہیں، پھر بھی ہم اسرائیل اور امریکہ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے، لبنان اور غزہ بھی اس جنگ میں کامیاب ہوں گے۔"